top of page

یزید پلید

یزید پلید


تحریر محمد زمان

@Z_Bhatti1


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ کی وفات کے بعد آپ کا نا خلف اور انتہائی شقی اور بد نصیب بیٹا یزید تخت سلطنت پر فرعون زمانہ بن کر بیٹھ گیا اور اس نے اپنی بیعت لینے کے لیے اعتراف سلطنت میں ہر طرف فرمان اور قاصد روانہ کیے

یزید کون تھا وہ کیسا تھا

محاذ اللہ یزید ابن معاویہ اموی وہ بدترین شخص ہے جس کی پیشانی پر اہل بیت نبوت کے خون ناحق کا قیامت تک نہ ہٹنے والا سیاہ داغ ہے یہی وہ بد نصیب اور شقی القلب ظالم ہے جس پر تا قیامت تک تمام دنیا اسلام تحصیر و ملامت کہ پتھر برساتی رہے گی

یہ ننگ خاندان بنی امیہ سن 25 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں ملیسون بنت بحدل کے پیٹ سے پیدا ہوا انتہائی بد شکل موٹا بھدا پورے بدن پر بال انتہائی بد خلق بدمزاج فاسق و فاجر شرابی بدکردار ظالم غدار اور انتہائی بے ادب گستاخ تھا محرمات کے ساتھ نکاح اور سود وغیرہ مہنیات شرعیہ کو اس بے دین نے علانیہ رواج دیا حضرت عبداللہ بن حنطلہ الغسیل نے فرمایا کہ واللہ ہم نے یزید پر اس وقت خروج کیا جب ہم کو یہ ڈر ہو گیا کہ کہیں یزید کی بداعمالیوں اور بدکاریوں کی وجہ سے ہمارے اوپر آسمان سے عذاب کے پتھر نہ برسنے لگیں

اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عبدالعزیز کے دربار میں یزید کو امیر المومنین کہہ دیا تو آپ نے اس کو 20 دورے مارنے کی سزا دی کہ یزید جیسے بد ترین شخص کو امیر المومنین کہنا جرم عظیم ہے

حضرت ابوہریرہ جوان صحابہ میں شمار کیے جاتے ہیں وہ رحمت عالم کے راز دار اور صاحب اسرار ہیں آپ نے سن 59 میں یہ دعا مانگی کہ


اللھم انی اعوزبک من راس

الستین وامارتہ الصبیان


یعنی یا اللہ ہمیں سن 520 کی شروعات اور لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں


حضرت ابوہریرہ کو معلوم تھا کہ سن 520 میں یزید کی حکومت ہوگی اور یہ بڑے فتنوں کا وقت ہوگا اس لئے آپ نے اس سے پناہ مانگی چنانچہ آپ کی یہ دعا بارگاہ خداوندی میں قبول ہوگی اور سن 59 ہی میں آپ کی وفات ہوگئی تاریخ الخالفہ

بہر کیف یزید پلید نے تخت سلطنت پر قابض ہونے کے بعد اس نے ہر طرف اپنی بیعت کے لئے حکم نامے اور مقاصد بھیجیے چنانچہ مدینہ منورہ کے حاکم ولید ابن عقبہ کو یا زید نے یہ فرمان بھیجا کہ تم میرا یہ فرما دیتے ہیں سب خلوص و عام اور عمائدین مدینہ سے میری بیعت لو اور خاص کر حضرت امام حسین اور عبدالرحمن ابن ابو بکر اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہا کو تو ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دینا اور سب سے پہلے ان لوگوں سے بیعت لینا چنانچہ یزید کا فرمان ملتے ہیں ولید ابن عقبہ نے حضرت امام حسین کو اپنے دارلا مارت گورنمنٹ ہاؤس میں بلایا اور یزید کا فرمان سنا کر آپ سے بیعت کا طالب ہوا ہے امام عالی مقام نے صاف صاف فرما دیا کہ یزید اپنے فاسق و فحبور اور ظلم و عددان کی وجہ سے ہر گز اس قابل نہیں کہ میں اس کے ہاتھ پر بیعت کروں اس لئے میں ہرگز ہرگز کبھی بھی اس کی بیعت نہیں کر سکتا

( آئیں جو انمرداں حق گوِئی وبے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی )


جس وقت امام عالی مقام نے یزید کی بیعت سے انکار فرما دیا تو ولید بن عقبہ نے آپ کو بہت نرمی کے ساتھ سمجھایا اور اس کے خطرناک انجام کی طرف توجہ دلائی ہے مگر جب آپ نے پورے عزم محکم کے ساتھ بیعت سے انکار فرما دیا تو ولید ابن عقبہ نے آپ کو پورے اعزاز کے ساتھ رخصت کردیا اور عرض کیا کہ ابن رسول اللہ آپ اس معاملے میں جلد بازی کے ساتھ کوئی فیصلہ نہ فرمائے بلکہ اس وقت آپ اپنے دولت خانہ پر تشریف لے جائیں اور اطمینان سے سوچ و بچار کر کوئی فیصلہ فرمائیں اور کل اسی طرح پھر یہاں قدم فرمائیں تو بہت بہتر ہوگا


حضرت امام عالی مقام کو خوب اچھی طرح معلوم تھا کہ بیعت کے انکار سے یزید پلید انتہائی مشتعل ہوگا اور میری جان کا دشمن اور خون کا پیاسا ہو جائے گا لیکن فرزند رسول اللہ سے بھلا یہ کب ممکن تھا کہ تقوی اور دیانت کو ٹھکرا کر محض اپنی جان بچانے کے لئے ایک فاسق نابکار اور فاجر بدکار کو خلافت کا حقدار تسلیم کرلوں اور مسلمانوں کی تباہی اور دین و ملت کی بربادی کا کچھ خیال نہ کروں

مسلمانوں اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر امام عالی مقام بھی یزید کی بیعت فرما لیتے تو یقینا یزید اس کو آپ کا ایک احسان عظیم سمجھ کر آپ کی انتہائی قدرومنزلت کرتا اور فرط محبت سے آپ کے قدم دھو کر بھی تھا اور بنی امیہ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کی مقدس جوتیوں پر ڈال دیتا آپ کو بے شمار مال و دولت بھی دیتا بلکہ کسی صوبے کی گورنری اور حکومت بھی پیش کر دیتا مگر امام برحق کی حق پرست نگاہوں کے سامنے آفتاب بن کر یہ حقیقت چمک رہی تھی کہ اگر میں یزید کی بیعت کر لیتا ہوں تو نظام اسلام درہم برہم ہوکر ملت اسلامیہ میں ایسا عظیم فساد برپا ہو جائے گا جس کو دور کرنا ناممکن اور محال ہو جائے گا دین اسلام مٹ جاے گا اور پرچم اسلام کی دھجیاں پارہ پارہ ہو کر فضائے آسمان میں بکھر جائیں گی کیونکہ ظاہر ہے جب آپ یزید کی بیعت فرما لیتے تو آپ کی بیعت یزید کی بدکاری کے جواز کے لئے سند بن جاتی اور تمام مسلمان یہ سمجھ لیتے کہ یزید کا ہر عمل اسلام کے مطابق ہے کیونکہ ہر شخص یہی کہتا کہ اگر یزید اسلام کے خلاف عمل کرتا تو بانی اسلام کے نور نظر و ملت اسلام کے عظیم رہبر امام عالی مقام ہر گز کبھی اس کی طبیعت نا فرماتے

برادران اسلام یہی وہ واحد سبب تھا کہ جگر گوشہ رسول وفرزند بتول نے بڑے بڑے آلام و مصائب کو برداشت فرمایا

بلکہ اپنے پھولے پھلے گلشن کو اپنی نظروں کے سامنے ظلم وعدوان کی خزاں سے ویران و برباد ہوتے دیکھا بلکہ اپنے خون کا آخری قطرہ اور اپنی زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں قربان کر کے ملت اسلامیہ کی ڈوبتی اور ڈگمگاتی کشتی کو گمراہیوں کے طوفان سے نکال کر ساحل نجات پر پہنچا دیا اور قیامت تک کے لیے اسلام کا پرچم بلند کیا


یزید نے تمام اہل مدینہ میں سب سے پہلے امام عالی مقام ہی سے

بیعت کا مطالبہ اس لیے کیا کہ اس کو یہ معلوم تھا کہ اگر امام بیت فرما لیں گے تو پھر روئے زمین میں کسی کو میری بیعت سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہے گی

حضرت امام عالی مقام کی استقامت اور انکار بیعت سے اس کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا اور یزید مارے غیظ و غضب کے آگ بگولہ ہو گیا اور یہاں تک اپنی خباثت پر اتر آیا

کہ اس نے حاکم مدینہ ولید کو یہ فرمان بھیجا کہ اگر امام حسین میری بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر کاٹ کر میرے یہاں روانہ کر دی جب اس مضمون کے چند حاکم نامے متواتر ولید کے پاس پہنچے تو ولید نے مجبور ہوکر امام عالی مقام کو یزید پلید کے اس ناپاک منصوبے سے آگاہ کیا

آپ نے مخلصین صحابہ سے مشورہ کیا تو آپ کو یہ صلاح دی کہ ایسے ماحول میں آپ کا مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلے جانا زیادہ مناسب ہے چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر کو مکہ مکرمہ کے روانی کا عزم فرمالیا سامان باندھے جانے لگے انھوں پر کجاوے کس ڈالے گئے

اور اب نبوت کا یہ مقدس قافلہ مدینہ الرسول کی جدائی کے صدمے سے روتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل پڑا اور امام عالیمقام اپنے نانا جان کے روضہ اقدس پر آخری سلام کے لیے حاضر ہوئے

اس روح فرسا مناظر کے تصور سے دل و دماغ کے گوشے گوشے میں سلامت کا ایک ایسا کوئی آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے کہ بدن کے رونگٹے رونگٹے میں افطراب بابا قراری اور آنکھوں میں گریہ وزاری اور اشک باری کا ایک طوفانی سیلاب کا مڑتا ہے اللہ اللہ کیا آفتاب و ماہتاب کی آنکھیں کبھی وہ منہوس دن بھی نہ دیکھے گی

کہ رسول اللہ کی آغوش میں نبوت کا پہلا حضرت علی اور حضرت بی بی فاطمہ الزہرا کی آنکھوں کا اجالا حسین سید علی اسطرح مدینہ سے نکالا جائے گا

مسلمانوں ایک وہ دن تھا کہ ان کے نانا جان نے جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ کو اپنے قددم میمنت لزوم سے سرفراز فرمایا تھا تو اہل مدینہ کے بوڑھے اور جوان چوم کر یہ استقبالیہ نظم گاتے تھے


تعالیٰ البدرو علینا من ثنیات الوداع ای وجب الشکرعلینا مادعی للہ واع

اور مدینہ کی ننھی ننھی بچیاں

فرط مسرت میں اپنی باریک اور سوریلی آواز سے یہ نغمہ گاتی تھی



9 views0 comments
bottom of page