top of page

یادیں

‏جوانی کی بہاریں جب سر ابھارنے لگیں تو سبھی بچے سیانے ہوجاتے ہیں لڑکیاں دوپٹے سر پہ سیدھے کر لیتی ہیں اور لڑکے بھی جب کسی رشتے دار کے گھر میں جاتے ہیں تو نگاہیں نیچی رکھتے ہیں اور شرافت کا ثبوت دیتے ہیں ۔


تحریر آگے نہیں جائے گی ۔ بلکہ یہی سے پیچھے جائے گی -


شباب کے پرکیف لمحات سے پانچ سات برس قبل جب بچوں کو پورے ہوش و حواس ہوتے ہیں مگر وہ سن بلوغت کو نہیں پہنچے ہوتے ۔۔


سات آٹھ دس برس کی عمر شہزادی عمر ہوتی ہے ۔۔ نہ کسی کی فکر ، نہ کسی کا ذکر ، صرف کھیل اور تعلیم پہ ہی ذھن فٹ ہوتا ہے ۔۔۔

آج کے دور میں بچوں نے اپنے مشغلے بدل لئے ہیں ۔۔

اکثریت بچوں کی انٹر نیٹ میں مگن ہے جن بچوں کے پاس اپنے سیل فون نہیں انہوں نے ابا چچا بھائی ماموں کے سیل میں دو چار ویڈیوز ضرور دیکھنی ہیں ۔یہیں سے آگہی و شعور کا اطلاق ہوتا ہے اور کچی عمر میں جو بات ذھن نشیں ہوجائے پھر مرتے دم تلک بھولتی نہیں ۔۔


ہم 90 کی دھائی میں پیدا ہونے والوں کی لسٹ میں سے ہیں ۔ہمارے مشغلے کچھ یوں تھے۔۔


پہلے پہلے تو سکول رو رو کے جاتے تھے پھر جب پتہ چلا کہ سکول میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے تو پھر ہم شوق سے سکول جانا شروع ہوگئے تعلیم سے زیادہ دلچسپی کرکٹ میں تھی ۔بعض اوقات ٹیچرز کی سختی سے کرکٹ بند ہوجاتی تو ہم اسمبلی شروع ہونے سے پہلے تختیوں سے پلاسٹک گیند سے ہی پانچ چھ دوست آہستہ آہستہ کرکٹ کھیلتے تھے ۔۔ پھر چھٹی کے بعد روز سکول میں کرکٹ کھیلتے پھر گاوں میں عصر کے بعد کرکٹ کھیلتے تھے ۔

گاوں سے منسلک کھیتوں میں دو چار ایکڑ زمین خالی مل ہی جاتی تھی ان دو تین ایکڑ میں ہی گراونڈ بنا لیا جاتا، کپاس کی چھڑیوں سے وکٹ بنائی جاتی اور سات ربڑی گیند کے اوپر ٹیپ لپیٹ کے کرکٹ کھیلی جاتی ۔

اکثر ایسا ہوتا تھا جب کرکٹ میں کسی کی باری نہ آتی تو وہ دوسرے دن کھیلتا ہی نہیں تھا پھر اسکی منتیں کرکے اسے اوپنر کھلایا جاتا ۔ چند دوست بیٹنگ سے زیادہ باولنگ پہ توجہ دیتے تھے انکو بیٹنگ ملے نہ ملے انہوں نے بس میچ سے اول آخر گیندیں ہی کروانی ہوتی تھیں یعنی شعیب اختر سی فیلنگ رکھتے تھے ۔

ہم جناب تو پھر شاہد آفریدی کے میچز دیکھتے تھے اور شاہد آفریدی سا رول خود کرنا چاہتے تھے ۔ہم شاہد آفریدی کے اس قدر فین تھے کہ دوست مجھے ہی شاہد آفریدی کہنا شروع ہوگئے تھے ۔۔اور پھر تاریخ گواہ رہی میں نے ہر باولر کو ایک اوور میں چار تین چار چھکے مارے -

چھکم چھکا چھتی کا ریکارڈ بھی میرے پاس ہے ۔۔۔


تحریر مائکروف اسٹائل اپنائے یہاں رخ بدلتی ہے


رات کو کھانا کھانے کے بعد سب بچے اپنے اپنے گھروں سے نکل آتے اور ( لمبی ٹیل ) کھیل کھیلتے ۔۔۔


لمبی ٹیل کی وضاحت کردوں کہ دو دو بچوں کی ٹیمیں بنتی تھیں تقریبا" سات آٹھ ٹیمیں ہوتی اور ایک ٹیم باری دیتی تھی باقی سات ٹیمیں دور بھاگ جاتی اور کھیتوں میں کہیں چھپ جاتی ۔جب مخصوص الارم ( ٹیلی) کہا جاتا تب باری والی ٹیم چھپنے والوں کے پیچھے لگ جاتی اور ہاتھ لگانے کی کوشش کرتی جبکہ چھپنے والی ٹیمیں مخصوص حصہ جسے ( دائی ) کہا جاتا تھا اسے ہاتھ لگانا ہوتا تھا ۔۔

جس ٹیم کو ہاتھ لگ جاتا پھر وہ باری دیتی ۔اگر ہاتھ نہیں لگا اور چھپنے والی ٹیمیں دائی کو ہاتھ لگا لیا تو پھر باری دینے والی کو ٹیم کو ( بازہ) ہو جاتا تھا ۔۔۔۔


سائیکل چلانا بڑی مشکل سے سیکھا تھا ۔۔۔

سائیکل کو کسی اونچی ڈھلان پہ لے کے جانا پھر ایک دوست سائیکل پکڑتا ایک دوست کی مدد سے میں سائیکل کے اوپر سوار ہوتا پھر پیچھے سے ہلکا سا دھکا دیا جاتا اور ڈھلان سے نیچے سائیکل بھاگتا بہت مزہ آتا مگر ہم ڈھلان کے آخر میں گر پڑتے تھے ۔۔۔دوست بھاگ کر سائیکل اٹھاتے اور ہم کو نیچے سے نکالتے ۔۔۔

پھر موٹر سائیکل ہم نے آسانی سے سیکھ لیا کیونکہ سائیکل پہ ہی گوڈے گھٹے رگڑا لئے تھے ۔۔


پتہ بھی نہیں چلا بچپن کا ابھی کل کی ہی تو بات ہے۔۔

کھیلتے کھیلتے جوان ہوگئے اور پھر جوانی بھی اب ڈھلنے لگی ہے اور آخر دو تین دہائیوں تک بڑھاپا آجائے گا، پھر آخر قصہ ختم ہو جائے گا۔۔۔


سب کچھ چھن گیا

نہ وہ بچپن کی بہاریں رہیں

نہ وہ دوستوں کی قطاریں


تحریر : شفقت سجاد دشتی

‎@balouch_shafqat


16 views0 comments
bottom of page