وزیراعظم عمران خان کا دورہ ازبکستان
وزیراعظم عمران خان کا دورہ ازبکستان.
عمران خان پر کوئی جتنی بھی تنقید کرے ، ان کی غلطیوں کو
اچھالے ، لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ
ایک انہیں پاکستان کا اور دوسرا پاکستانیوں کا درد ہے ، وہ
پاکستان سے باہر جاتے ہیں ، پاکستان کے لیے لاتے ہیں
اور جب واپس آتے ہیں تو وہ ان سے لڑتے ہیں جو پاکستانیوں کو
بے حال اور کنگال کر چکے ہیں ۔ اس میں سیاسی اشرافیہ ہوں یا مافیاز اور قبضہ مافیا ہوں ، جن سے پاکستان کے نوجوان بہتر
پاکستان کا نقشہ دیکھ پائیں. اگر کوئی کام کرے گا تو غلطیاں
بھی ہوں گی ، کیا باقی لیڈران غلطیاں نہیں کرتے تھے کیا ، وہ بھی کرتے تھے اپنا کم اور پاکستانیوں کا زیادہ جس کی وجہ سے انہیں کبھی پریشانی نہیں ہوتی تھی ، وہ عوام کے خون کی سرخی چھین کر کاروبار بھی کرتے تھے. میں وزیراعظم عمران خان کے کوئی
تعریفی کام نہیں لکھ رہا ، دنیا دیکھ رہی ہے ، اب تو کشمیر ایشو پر انڈین اخبارات بھی عمران خان کی آرایس ایس مخالف تحریک کو سراہتے اور مقبول قرار دیتے ہیں ، آپ
هندوستان ٹائم اٹھائیں ، یا نیویارک ٹائمز مودی کی فاشسٹ
پالیسیوں اور آر ایس ایس کی بجث زدو بام عام ہے ، میں لکھوں یا نہ لکھوں فرق نہیں پڑے گا، لیکن عمران خان کا افغانستان بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک ہی پیغام تھا کہ "میدان جنگ نہیں مذاکرات کی میز " مودی ہندوازم میں جکڑے گئے اور اشرف غنی سرعام پکڑے گئے ، جب انہوں نے پاکستان پر الزام تراشی کی ، جو افغانستان کے حکمران 1947 ء سے کرتے آرہے ہیں ، انہوں نے ہندوازم کو خوش آمدید کہا ، کمیونزم اور سوشلزم کے لیے دروازے کھولے مگر پاکستان کو بھی راکٹ باری ، میزائلو کی بارش اور ہمیشہ بندوق تان کر ہی دیکھا ہے ، یہی وجہ کہ افغان عوام میں اور افغان حکومت میں ہمیشہ فاصلے رہے ہیں ، بیرونی حملہ آور ہوں یا جنگجو گروپ ہوں یہ سب اُسی پالیسی کا ردِعمل تھے ۔ وہ سکون اسلام
آباد میں اور سازش دہلی میں ڈھونڈتے ہیں ، سینٹرل ساؤتھ ایشیا کانفرنس ازبکستان میں عمران خان نے اشرف غنی اور بھارتی مندوب کو سامنے رکھ کر حقیقت بتائی ،اور آئینہ دکھایا ، 2002 ء سے پہلے افغانستان نے
پاکستان کو بہت زخم دیئے ھم اپنے بچپن میں روز خبریں سنتے تھے کہ آج نجیب اللہ حکومت نے اِتنے راکٹ اور میزائل پاکستان کے علاقوں میں پھینکے ہیں ، پھر مزاحمت کار آئے تو 2002 ء سے لیکر اب تک پاکستانی معاشرت ، معیشت اور امن کا عمل تباه ہوا ، اسلحے کے انبار لگ گئے ، 160 ارب ڈالر سے زائد مالی اور ستر ہزار کا جانی نقصان ہوا ، کیا تم نے چالیس لاکھ افغان بھائیوں کی مہمان
نوازی نہیں کی ؟ پاکستان کے کسی حکمران نے نہ اتنی کھل کر دنیا کے سامنے بات نہیں کی اور نہ ہی افغانستان سے کچھ کہا ،
ساؤتھ ایشیا کانفرنس میں عمران خان نے یہ سب کچھ کر دکھایا ،جس دلیری ، جرآت اور سچائی کے ساتھ بھارت اور
افغانستان دونوں کو حقائق دکھائے ، کیا کسی رہنما نے ایسا
کیا ہے ؟ سوچیں عمران خان کو کتنا درد ھوگا پاکستانیوں کے لئے ، امریکہ ہو یا برطانیہ ہو، یورپ ہو یا مسلم ورلڈ وزیر اعظم عمران خان نے کسی بھی پلیٹ فارم پر دوغلی پالیسی کا اظہار نہیں کیا ، صاف اور واضح بات کی ، امریکہ افغانستان سے نکل گیا اور اب طالبان و افغان حکومت آمنے سامنے ہیں ، درمیان میں بھارت ایک مکمل سازشی پالیسی کے ساتھ موجود ہے، داعش بھی ، اور بھی متحرک گروپس بھی، کیا
یہ پالیسی اب دنیا کو نظر آئے گی کیا ؟ اس مرتبہ امریکہ یہاں سےدوسری مرتبہ گیا ہے " ں لا وجہ آنا اور بے وجہ جانا " اب
اسے مہنگا پڑے گا، کیونکہ اس خطے میں اب روس ، چین ، ایران ، پاکستان اور ترکی کی ایک واضح ہم آہنگی نظر آرہی ہے ، اب امریکہ کو ان رکاوٹوں سے گزر کر آنا ہوگا ، اس کے پیچھے اُسی لیڈر شپ کی سوچ ہے ، جس نے ازبکستان میں اس کا اظہار کیا جو آپ نے بھی دیکھا ہے ، بھارت اسی خوف میں اپنے تھکے ہوئےگھوڑے دوڑارہا ہے ، جو کبھی افغانستان میں اور کبھی کشمیر میں ہانپتے ہیں ، خطے میں افغانستان اس وقت اہم موضوع ہے ، عمران خان آج بھی اُسی موقف کے ساتھ کھڑے ہیں ، ازبکستان میں باہمی معاہدے بھی ہوئے ، گوادر تک ریلوے لائن ، مستقبل کی بڑی بندر گاہ کی تعمیر پر کئی
معاہدے ہوئے گوادر کی اہمیت اتنی بڑھ چکی کہ چین نے
دبئی سے سارا آپریشن گوادر منتقل کردیا ہے ۔ اسی خوف کی وجہ سے امریکہ اور خصوصا انڈیا تلملا رہا ہے. امریکہ اس کو روکنے کے لیے یہاں انڈیا سے کام
لے رہا ہے اور دوسری طرف وہ تائیوان کے ذریعےچین پر اور یوکرائن کے ذریعے روس کے اوپر نظریں گاڑے ہوئے ہے ، اس کا انجام کیا ہوگا ؟ وہ مستقبل میں دنیا دیکھے گی ، البتہ لیڈرشپ کی جو مضبوطی ضروری تھی وہ وزیر اعظم عمران خان نے ازبکستان میں دہرائی ہے ، وہ انڈین میڈیا سے بات ہو یا دنیا کے میڈیا سے سے مخاطب ہوں اُس میں پاکستان، پاکستانیوں اور کشمیریوں کا درد نمایاں تھا ۔
تحریر : ملک صادق حسین کھتری
( @im_shkhatri )