معاشرے سے قبیح فعل کا خاتمہ
"معاشرے سے قبیح فعل کا خاتمہ "
اللہ رحم کرے زنا جیسی برائ جس طرح سے معاشرے میں عام ہو گئ ہے، اس چیز نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے جس کی وجہ سے نہ تواس قبیح فعل میں کمی آ رہی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی شرعی سزا پہ عمل ہو رہا ہے۔ہم کم از کم اپنے طور پہ یہ چند نکات پہ عمل تو کر سکتے ہیں ۔
سب سے پہلے سوشل میڈیا اگر اس کا منفی استعمال ہوتا ہے کوئی بھی غلط مٹیریل کا استعمال خدانخواستہ چھوٹی عمر میں جب بچے کرتے ہیں تو پھر ان کا ذہن وہ برائی کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ اس برائی سے بچنے کی خاطر اگر ہم بچوں کو قران وحدیث کے مطابق بتائیں کہ اسلام میں اس برائ اس قبیح فعل کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اسکولز میں بچوں کو کھل کے اس طرح کی تعلیم نہیں دی جاتی تو اسے ہم گھر سے ہی دیں تو بہتر ہو گا ۔اسلامی اور شرعی سزاؤں کی پابندی کی جائے جب اسلامی اور شرعی سزاؤں کی پابندی ہو گی تو اس قبیح فعل میں کافی حد تک کمی ہو گی۔ بیٹیاں ہوں یا بیٹے دونوں کی تربیت کرتے ہوئے اس چیز کو مدنظر رکھیں کہ آج کی سوسائٹی میں آپ نے انہیں کس طرح کی تربیت دینی ہے انہیں یہ تمام چیزیں آپ نے اسلام سے ثابت کرکے بتانی ہیں کہ یہ غلط ہیں ۔
بیٹی کی تربیت کرتے ہوئے انہیں ان کے لباس کے متعلق لازمی بتائیں کہ چست لباس اسلام میں کیوں منع ہے۔ بعض لبرلز جو اس چیز کے اوپر بہت واویلا کرتے ہیں کہ خان صاحب نے بھی جب لباس کے متعلق کہا تھا تو انہوں نے بہت واویلا کیا تھا۔ مگر یہ میری ذاتی رائے ہے کہ جسم کی نمائش کسی صورت میں بھی قبول نہیں اس چیز کی اجازت نہ مذہب دیتا ہے نہ ہی معاشرہ۔
کیا ہم یہ برداشت کریں گے کہ جب ہماری بیٹیاں اپنے بھائی اپنے والد صاحب کے ساتھ کہیں باہر جائیں تو وہ ایسے لباس میں ہوں جس میں ان کا جسم نمایاں ہو رہا ہو تو کیا ان کے بھائی ،ان کے والد صاحب برداشت کریں گے؟ کم ازکم میں اس چیز کو قطعی برداشت نہیں کروں گی
۔جلد شادیوں کا رواج ڈالیں، شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرکے اس سے بچا جا سکتا ہے ۔
نکاح کو آسان کیا جائے۔
مرد اور عورت دونوں اپنی نظر کی حفاظت کریں۔ فحش فلمیں، ڈرامے گانے تمام غلیظ ویب سائٹس پر پابندی لگائی جائے ۔
اگر آپ اسلامی معاشرہ، مدینہ کی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسلام کے تمام اصولوں کو لاگو کیا جائے۔
سب سے اہم چیز جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے شریعت کے مطابق اگر سزائیں دی جائیں تو اس سے اس مکروہ کام میں بہت کمی ہوگی ۔
والدین کے ساتھ ساتھ سوسائٹی بھی اپنا کردار ادا کرے، مدارس کے بجائے سکولز میں بھی ناظرہ شروع کروایا جائے تاکہ میٹرک تک قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھا دیا جائے ، ترجمہ کی وجہ سے بچیاں اور بچے انہیں علم ہو ہو کہ قرآن پاک میں رب کا کسی بھی معاملے پہ کیا فرمان ہے ۔
اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ہوئے انہیں شروع سے ہی گڈ ٹچ بیڈ ٹچ کے متعلق بتا دیں وہ ایک جو زہنی کشمکش ہے وہ ختم کر دیں، تو ہم اللہ کی مدد سے اس آ زمائش سے بچوں کو بچا سکتے ہیں ۔سب سے اہم بات آج کل معاشرہ جتنی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ اپنے بچوں کو اپنے نزدیک کریں انہیں اعتماد دیں ان کے مسائل سنیں ،ان کے دوست بنیں ۔ان کے دوستوں کے بارے باخبر رہیں ،ان کے موبائل کے استعمال پہ نظر رکھیں ۔اگر آپکا بچہ غیر معمولی خاموش ہے یا پریشان ہے فوری ٹوہ لگائیں اللہ پاک ہم سب کو اولاد کے غم سے بچائے اور سب کو اپنی امان میں رکھے آمین
تحریر۔ سمیرا جمال
@sumairajamalkha
https://twitter.com/sumairajamalkha?s=08