جیت اور قوتِ ارادی
ہار اور جیت زندگی کے دو مختلف پہلو ہیں جو ایک ہی اصل سے جُڑے ہیں یعنی زندگی۔
انسان کو کسی میدان میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک جُہدِ مسلسل اور عزم و ہمت اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ ہارنے کے لیے صرف قوتِ ارادی کا نہ ہونا ہی کافی ہے، جو کہ مندرجہ بالا اشیاء کے لئے ڈرائیون فورس (چلانے والی طاقت) کا کام کرتی ہے۔
ہار اور جیت کے وقوع ہونے میں حالات کا کردار پیش پیش ہوتا ہے، لیکن آپکو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ آپکی ہار اُس وقت یقینی ہو جاتی ہے جب آپ خود سے ہار کر، اپنی قوتِ اِرادی کو کھو بیٹھتے ہیں، اور اس میں حالات کا ذرہ بھر بھی عمل دخل نہیں ہوتا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک کلاس میں ایک استاد نے اپنے طلباء کو حل کرنے کے لیے ایک سوال دیا اور ساتھ کہا کہ یہ آپ میں کسی سے بھی حل نہیں ہوگا۔ دوسرے دن دس طلباء میں سے صرف ایک ہی طالبِ علم سوال حل کرنے میں کامیاب ہوا اور وجہ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کل جب استاد یہ سوال دے رہا تھا تب اُن دس طلباء میں سے اُس طالبِ علم کا دھیان کہیں اور بھٹکا ہوا تھا اور وہ استاد کی آخری بات نہ سُن سکا کہ " یہ آپ میں کسی سے حل نہیں ہو سکے گا" پس اسی وجہ سے اُس کے ارادے کمزور نہ ہو سکے اور وہ کامیاب ہوگیا۔
کسی شاعر نے کیاخوب کہا:
ہمیشہ عزم والے توڑتے ہیں غم کی زنجیریں
قفس میں رہنے والو، بے کسی سے کچھ نہیں ہوتا
اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر لمحہ اپنے مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ہر قدم کو پرکھا جائے کہ آیا یہ قدم مجھے میرے مقصد سے دور تو نہیں کر دے گا، کیوں کہ انجانے میں اٹھائے ہوئے ایسے ایک ایک قدم آپکو اس موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو جاتی ہے اور آپ اپنے مقصد کے لیے آخری امید تک کو کھو بیٹھتے ہیں۔
سو ایک لا زوال جیت کے لیے جہدِ مسلسل اور عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ ساتھ آپکو اپنی زندگی کو اس طرح بنانا ہوتا ہے کہ جیسے آپکا ہر ایک قدم آپکو آپکی منزل کی طرف لے جائے، اور اسطرح جیت آپکا مقدر ہو جاتی ہے____
تحریر انجینئرمحمد امیر عالم
@EKohee