top of page

ازہر ہند دارالعلوم دیوبند پر طائرانہ نظر

ازہر ہند دارالعلوم دیوبند پر طائرانہ نظر


تحریر: محمد صابر مسعود


ضلع سہارنپور میں واقع ایک قصبے ( نانوتہ )کے رہنے والے حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے 30/مئی/1866ء بمطابق 15/محرم الحرام/1283ھ کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں ازہر ھند دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی۔

واضح رہے کہ اس نیک کام میں انہیں مولانا محمود الحسنؒ (شیخ الہند) کے والد صاحب مولانا ذوالفقار علی صاحبؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے والد محترم مولانا فضل الرحمن صاحبؒ کا عملی تعاون حاصل رہا۔

روزِ اول سے ہی دارالعلوم دیوبند ہر نت نئے ابھرنے والے فرقے کو دنداں شکن جواب دیتا رہا ھے خواہ وہ مولانا احمد رضا کی شکل میں ھو یا شکیل بن حنیف جیسے ناقص العقل کی شکل میں، یہود و نصاری کی شکل میں ہو یا جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کی شکل میں الغرض جو بھی قرآن و سنت کے خلاف چلا الحمدللہ دارالعلوم دیوبند نے اسکا جم کر مقابلہ کیا اور ان شاء اللہ کرتا رہیگا۔

علاوہ ازیں سینکڑوں مفسرین، محدثین، مجاہدین، ادیب اور تلامذہ کو جنم دے چکا ھے۔ جن میں سر فہرست مولانا محمود الحسنؒ جیسے فقیہ (جنکی قیادت میں آزادئ ہند کے لئے اس وقت تحریک شروع ہوئی، جب ہندوستان کی آزادی کے لیے ملک میں کسی بھی تحریک کا شائبہ تک نا تھا، ملک کی آزادی کے لئے انھوں نے ہر طرح کی قربانیاں دیں، قید وبند کی تکالیف برداشت کیں، پھانسیاں دی گئیں، کالاپانی بھیجے گئے، برادرانِ وطن کودعوت دی اور ان کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرانے میں پیش پیش رہے، انکی تحریک کو ریشمی رومال کے نام سے یاد کیا جاتا ہے)، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے مفسر قرآن ( جنکی پوری زندگی خدمت اسلام میں گذری، آپ کے کردار نے مسلمانوں میں زندگی کی روح دوڑادی تھی، ساسی و ملکی خدمات میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، تحریک خلافت میں آپ جمیعت علمائے ہند کی مجلس عامہ کے زبردست رکن تھے، مسلم لیگ میں شریک ہو کر تحریک پاکستان کو تقویت بخشی اور ایک جماعت “جمیعت علمائے اسلام“ کے نام سے تشکیل پائ جس کے پہلے صدر آپ منتخب ہوئے، کشمیر کی جدوجہد و آزادی میں بھی نمایاں حصہ لیا، پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان ہونے کے باعث آپ نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں قانون اسلامی کی تجویز “قرارداد مقاصد“ کے نام سے پاس کرائی۔

غرض یہ کہ تحریک پاکستان میں اگر ایک طرف دنیاوی حیثیت کے لوگوں کی خدمات ہیں تو دوسری طرف اتنی ہی علامہ شبیر احمد عثمانی کی دینی خدمات ہیں، مولانا اشرف علی تھانویؒ جیسے حکیم الامت (جنہوں نے تصوف و سلوک اور تصنیف و تالیف میں بہت بڑا کام انجام دیا ہے، آپ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی بیعت سے سرفراز ہوئے اور تصنیف و تالیف میں بہشتی زیور آپ کی مشہور کتب میں سے ہے ) ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ جیسے مرد مجاھد (جنہوں نے 1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دالارشاد قائم کیا اور سات برس تک تبلیغ اسلام میں منہمک رہے،1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلبہ کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دیں، 1912 م میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے، ترکی میں 1924ء میں اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا، اس موقع پر آپ نے آزادئ ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا، ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ معظمہ میں رہے اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور دینی مسائل کو تحاریر و تقاریر کے ذریعہ عوام تک پہنچایا، آپ نے تحریک ریشمی رومال میں سرگرم حصہ لیا، افغانستان کی آزادی کی سکیم آپ ہی نے مرتب فرمائی تھی، 25 سال تک جلاوطن رہے، افغانستان میں آل انڈیا کانگریس کی ایک باضابطہ شاخ قائم کی، ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے) اور سید انور شاہ کشمیریؒ جیسے ذہین وفتین سر فہرست ہیں جنہوں نے جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیا سے باہر شمع اسلام کو روشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی شمع سے شمع روشن کرنے کی یہ روایت و سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ان شاء اللہ تاقیامت جاری رہیگا


تحریر: محمد صابر مسعود

@sabirmasood_


4 views0 comments
bottom of page